08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط11
غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر11
شاجین کے بنگلوں میں سے ایک یہ اسی کا ہی بنگلہ تھا۔ اس وقت وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔
تین لڑکیاں پاس تھیں دو بازو دبا رہی تھیں تیسری ساتھ بیٹھی اسکو ڈرنک کرا رہی تھی۔
شاجین کے سامنے کیمرے فٹ تھے جہاں سے وہ اپنا ہر اڈہ اور جگہ دیکھ رہا تھا۔
ماریہ جیسے اٹھی کہ اب نکل جاؤں تو فورا سامنے تین کالے حبشی ٹائپ بندے آ گئے۔
جو اسکو کچھ بول رہے تھے پر ماریہ کو انکی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
ان میں سے ایک بولتا ہوا آگے بڑھا تو ماریہ پیچھے ہٹی پریشان تھی کہ کیا کروں۔
یہ پکڑنا چاھتے ہیں یا جانے کا بول رہے ہیں اف یہ انکی زبان بھی نہ۔ امجد کو ہی آتی ہے۔
اب مجھے کیا پتہ سوچ رہی تھی۔ جانے لگی تو ایک نے بازو پکڑ لیا ماریہ کا۔
ماریہ کو خطرہ محسوس ہو رہا تھا وہ پہلے سے ہی تیار تھی۔ آج کوس رہی تھی اپنی قمیض شلوار کو کیوں کے ان کپڑوں میں انکا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ دوسرا لباس آرام دہ ہے۔
پر عورتوں کے لئے اسلام میں منع جو تھا۔ ماریہ نے اس کے پیٹ میں دو گھونسے مارے اور اچھل کر دور جا کھڑی ہوئی۔
اب وہ خود کو آنے والے وقت کے لئے تیار کر رہی تھی بھاگتے انہوں نے دینا نہیں تھا۔
دوپٹہ اتار کر ہپ پر باندھا اور انکو دیکھنے لگی۔ شاجین جو انکو دیکھ رہا تھا اسکی نظر اسی ماریہ پر تھی۔
Kedengaran hebat.
(لگ بڑی کمال کی رہی ہے۔)
فون کرتا ہے ماریہ کی حرکت کو دیکھ کر ان میں سے ایک کو۔
سنو اسکو جانے دو اور پیچھا کرو یہ کہاں سے آیی ہے کہاں جاتی ہے اور کہاں رہتی ہے مجہے رپورٹ دینا۔
اوکے باس۔ وہ سب راستہ چھوڑ کر ہٹ گئے۔
اسکو جانے کا راستہ دے دیا۔ ماریہ حیران تھی۔
پھر سوچا مجہے کیا مجہے تو بس کسی طرح یہاں سے نکل کر گھر جانا ہے ۔
پر مجہے گھر کا بھی تو نہیں پتہ کیا کروں۔ امجد کو کال اف میرا موبائل بھی پاس نہیں۔
سر پکڑ کر کھڑی تھی۔ یہاں سے تو نکلوں فورا باہر بھاگی۔ اب وہ ایک درخت کے ساتھ کھڑی تھی۔ کس طرف جاؤں۔
رقم بھی پاس نہیں۔ پانی کا ایک قطرہ آنکھ سے نکل کر گرا۔ کتنی مجبور تھی وہ آج اور یہ سب اس ضیاء کی وجہ سے تھا۔
میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ضیاء میرے پاؤں ہی پکڑ لو۔ نفرت تھی ماریہ کے چہرے پر۔
کبھی تو حقیقت کھلے گی تم پر تب تم خود سے بھی نظریں نہیں ملا پاؤ گے۔
تب پچھتاوا رہ جائے گا تمہارے پاس۔تم نے ایک بے گناہ کو تنگ کیا اسکو رلا رہے ہو۔
تڑپو گے تم بھی میری طرح۔ تنہا رہ جاؤ گے اپنی روح کے ساتھ۔ بد دعا دے رہی تھی ضیاء کو رو کر۔
اتنے میں ایک مرد اور عورت گزرے پاس سے ماریہ بھاگ کر سامنے ہویی۔
اشارے سے انکو کال کرنے کی منٹ کی۔ لڑکے نے موبائل دے دیا۔
امجد ماریہ کیا ہوا۔ وہ میں لا پتہ ہو گئی ہوں سارا اسکو بتایا۔ امجد نے سر پیٹ لیا۔
جب میں نے کہا تھا کہ جب دل ہو میں جہاں کہو گی لے جاؤں گا تو کیوں نکلی گھر سے۔ بہت غصہ آ گیا تھا امجد کو۔
آس پاس کا جلدی بتاؤ میں آتا ہوں۔ ماریہ نے نشانی بتایی ۔ویٹ کرو اور چھپ کر رہو میں آ رہا ہوں۔ ماریہ نے تھینکس کہا انکو اشارے سے۔ وہ دونوں چلے گئے۔
ضیاء ہنس رہا تھا ماریہ تمنے آنا تو گھر ہی ہے جسکا مجہے پتہ ہے۔
بھاگ تو تم سکتی نہیں مجھ سے۔ دس منٹ ٹک ایک گاڑھی آ کر اس جگہ رکی۔
امجد باہر نکلا ماریہ بھاگ کر آ کر اس کے گلے لگی۔ رو رہی تھی اپنی زندگی کے اس کھیل پر۔
چلو بیٹھو۔ گھر پھنچے۔ ماریہ کا سر پھٹا جا رہا تھا آج جو ہوا اسکی وجہ سے۔
امجد نے ڈپریشن کی دوائی دی اور چاہے مانگوای۔ اب آرام کرو۔
مجہے باہر جانا ہے تمارے لئے آیا تھا شام کو جلد آ جاؤں گا۔ خیال رکھنا اپنا۔
چلا گیا۔ ماریہ نے آنکھیں موند لیں۔ امجد کلب میں پہنچا۔ وہاں سب لڑکے لڑکیاں موج مستی میں بزی تھے۔
ایک ٹیبل پر جا کے بیٹھا۔ عقابی نظروں سے اپنے شکار کو ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔
یہاں نہیں ہیں اندر کی سائیڈ پے اب اسکا رخ تھا۔ اندر بھی اسی طرح کا ایک اور حال تھا جو اہم کارندوں کا تھا۔
آعلیٰ کوالٹی کا سامان تھا وہاں خاص گاہک کے لئے۔ پھر وہ کمروں کی طرف گھوما۔کمرے دیکھتا جا رہا تھا۔ ایک میں اسکو ھنسنے کی آواز آیی۔
ہول سے دیکھا تو شکار سامنے تھا۔ پستول ہاتھ میں لیتا دروازہ زور سے لات مار کے کھولا۔
وہ مرد دو عورتوں کے ساتھ بزی تھا۔ یو باسٹرڈ تمہاری ہمت کیسے ہوئی اندر آنے کی۔
مجہے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پستول کی نال پر پھونک مار کے بولا۔
پھر لڑکیوں کو ادھر سے بھاگتے کا اشارہ کیا گو۔ وہ ڈر کر بھاگ گیں۔
تمہیں میں چھوڑوں گا نہیں وہ بعد کا کام۔ اسکو پستول کے زور پر گاڑھی کی طرف لاتا ہے۔ اب وہ شاجین کے پاس کھڑا تھا۔
آپ کا کام ہو گیا ہے۔ میں چلتا ہوں۔ امجد بول کر باہر نکل آیا۔ اب وہ کلب میں تھا۔
پی رہا تھا۔ جب ہمت جواب دے گی تو لڑکھڑاتا گھر آیا۔ ماریہ آواز سن کر باہر آیی۔
یہ کیا حال بنا رکھا ہے تمنے۔ یو نو میرے ہارٹ میں پین ہے۔ جب میں تنہا ہوں۔
کوئی نہیں میرا۔ سب اپنی زندگی میں بزی ہیں۔ میری کسی کو پروا نہیں۔
مجہے ہے پروا ادھر آہیں۔لیٹ جایں۔ ہیلو بوا۔ جی بیبی جی۔ پانی ہلکا گرم کر کے لاین ۔
جی کہ کر بھاگ گئی۔ تم ہو اب ساتھ۔ مجہے چھوڑ کر مت جانا۔ نشے میں تھا امجد۔
میں پیار کرنے لگا ہوں تم صد بہت زیادہ۔ نہیں جانا۔ ہاں نہیں جاؤں گی۔
یہ لیں بیبی۔ نہیں اب چھوڑو۔ انکو سونے دیتے ہیں۔
ماریہ اپنے کمرے میں تھی۔
امجد کی باتوں سے اسکی نیند ختم تھی۔ آج اسکی حالت سے ماریہ کو دکھ ہوا۔
میں تمہارے ساتھ ہوں یہ کہ کر مطمئن ہونے کی کوشش کرنے لگی۔
صبح امجد جاگا تو سب یاد آیا اسکو۔ ناشتے کی ٹیبل پر دونوں چپ تھے۔ اب کیسے ہیں آپ کل طبیعت ٹھیک نہیں تھی آپ کی۔
اب ٹھیک ہوں امجد سوچ میں ڈوبا ناشتہ کر رہا تھا۔ مجہے آپ سے کچھ کہنا ہے پھر ماریہ کے تاثرات کا جایئزہ لیا۔
میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔آپ اگر نہ بھی کہیں گی تو مجہے اپنے ساتھ پایں گی۔
مجہے منظور ہے سر جھکاے ماریہ نے ہاں کردی۔ تھینکس میں بہت خوش ہوں۔
میں امی ابو کو بتاتا ہوں۔ شام کو انکا نکاح بھی طے پا گیا۔رخصتی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
اس شادی کو قسمت یادگار بنانے والی تھی۔امجد کچھ کپڑے لایا۔
ماریہ نے ریڈ ہی پسند کیا۔ یوں رات پیار محبت میں گزر گئی۔
شاجین کو پتہ لگ چکا تھا کے ماریہ امجد کے ساتھ ہوتی ہے۔ اسنے رات میں ہی یہاں امجد سے چھپا کر کیمرے نصب کروا دیے تھے۔
صبح امجد کام پر گیا ماریہ خوش تھی امجد کو پا کر۔ صبح وہ کام سے پر نیلے کپڑے پہنے لان میں ننگے پاؤں چل رہی تھی۔
چہرے پر سکون تھا۔ کوئی شہزادی آسمان سے اتری لگ رہی تھی۔
جب شاجین نے اسکو دیکھا ان کپڑوں میں اس کے منہ سے نکلا۔
Saya mahu ini juga.
(مجہے ہر حال میں یہ چاہیے)